دعا زہرہ کے ماں باپ کی پکار
دعا زہرہ کی کہانی ہر ماں باپ کے لیے ایک سبق ہے کیوں کہ ماں باپ اپنی اولاد کوجنم دیتے ہیں اُن کو بولنا چلنا اور اچھے سکول میں داخل کرواتے ہیں تاکہ ہماری اولاد پڑہ لکھ کردینا کا مقابلہ کر سکے اور اپنی زندگی کی تمام خوشیاں قربان کر دیتے ہیں لیکن اولاد ماں باپ کا ایک دن کا قرض بھی نہیں ادا کر سکتی۔
دعا زہرہ کا کراچی سے لاہور آنا پولیس اور عدلیہ کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اِس معاملے کی تفتیش ہونی بہت ضروری ہے۔
دعا زہرہ کا نکاح بھی سوالیہ نشان ہے کیونکہ بغیر ثبوت نکاح کروانا ایک جُرم ہے جس وکیل نے اِن دونوں کا نکاح کروایا اُس نے دونوں سے پوچھا کہ آپ کے پاس شناختی کارڈ ہے ظہیر کے پاس تھا اور دعا زہرہ نے کہا میرے پاس کچھ نہیں ہے اگر اُس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا تو وکیل کس قانون کے مطابق اُن کا نکاح کروا سکتا ہے بشک لڑکی نے کہا کہ میری عمر 16 سے 17 سال ہے وکیل کو چاہیے تھا وہ نادرہ سے کنفرم کرتا یا لڑکی کے والدین سے رابطہ کرتا لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا اِس وجہ سے ہمارا معاشرہ خراب سے خراب تر ہوتا جا رہا ہے جو بھی منہ اُٹھائے گا وہ وکیل کے پاس جائے گا اور کہے گا میری عمر پوری ہے میرا نکاح کروا دو۔
جس طرح کراچی لاہور کی پولیس دعا زہرہ کے ساتھ عدالتوں میں سلوک کررہی تھی کہ جیسے وہ دہشت گرد ہے یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے اِس پر انکوئری ہونی چاہیے اور حقائق سامنے آنے چاہیے۔
کراچی اور لاہور کی عدالتوں کے جج صاحبان نے میڈیکل رپورٹ پر فیصلہ دیا کیا انہوں نے یہ گہوارہ ہی نہیں کیا کہ دعا زہرہ کا ڈیٹا نادرہ سے کنفرم کیا جائے اُن کے ماں باپ سے تصدیق کی جائے جو کہ غلط فیصلہ تھا یہ بھی پاکستان کی ہر ماں اور باپ کے لیے عدالتوں پر سوالیہ نشان ہے اِس پر بھی کیمشن قائم ہو کیونکہ یہ ہرپاکستانی بیٹی کا سوال ہے۔
زنیرہ ماہم صاحبہ کے انٹرویو پر بھی کئی سوالات نے جنم لیا ہے پاکستان کی ہر ماں اور باپ کے جذبات کو مجروع کیا آخر کار آپ بھی پاکستان کی بیٹی ہو جو اصل حقائق تھے اُن کو سامنے لانا چاہیے تھا تاکہ آئندہ کسی کی بیٹی کے ساتھ ایسا نہ ہو۔
میں سپریم کورٹ کے چیف جیسٹں عمرعطا بندیال صاحب سے اپیل کرتا ہوں اِس کا نوٹس لیں اور جو اصل حقائق ہیں اُن کو سامنے لایا جائے تاکہ آئندہ کسی کی بیٹی کے ساتھ ایسا نہ ہو اور اِس کے علاوہ ایسا حکم صادر فرمائیں کہ بے فارم کے بغیر کسی کا نکاح نہ کیا جائے اورماں باپ کی رائے لینا ضروری قرار دیا جائے تاکہ ماں باپ کی بھی اِس معاشرے میں عزت ہو۔
منصورعلی خان صاحب میں آپ کا وی لاگ سنتا ہوں آپ سچ کی آواز بلند کرتے اور میں آپ کا بہت بڑا فائن ہوں اُمید ہے آپ میرے پوائنٹ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک پورا وی لاگ کریں گے نہ میں صحافی اور نہ تجزیہ نگار ہوں صرف ایک عام شہری ہوں جو میرا دل میں ہوتا ہے وہ لکھ دیتا ہوں۔
اگر کسی کے بارے میں میرے سے غلط لکھا گیا ہو تو معافی چاہتا ہو۔
مولخ محمد شفیق

.jpg)
PEASE ADD THE COMMENT WHICH HAS MEANING.AND DESCRIBE YOUR CHARACTER.....